گمنام گاؤں کا خوفناک راز

Horror all age range 2000 to 5000 words Urdu

Story Content

گمشدہ زمانوں کے ایک پرسکون کونے میں، وادیٔ سندھ کے قریب، ''رانپور'' نامی ایک چھوٹا سا گاؤں واقع تھا۔ یہاں زندگی سست روی سے چلتی تھی، اور ہر طرف ایک پراسرار سکون چھایا رہتا تھا۔ مگر یہ سکون محض ایک دھوکہ تھا۔
رانپور کی بنیاد ایک المناک واقعے پر رکھی گئی تھی۔ صدیوں پہلے، ایک ظالم جاگیردار نے گاؤں والوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے تھے۔ ان کے کھیت چھین لیے گئے، گھروں کو تباہ کر دیا گیا، اور خاندانوں کو بکھیر دیا گیا۔ ظلم کی انتہا یہ تھی کہ جاگیردار نے گاؤں کے معصوم بچوں کو ایک خفیہ مقام پر زندہ دفن کروا دیا تھا۔
ان مظلوموں کی چیخیں آج بھی رانپور کی فضاؤں میں گونجتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی بے چین روحیں گاؤں میں بھٹکتی ہیں، انصاف کی تلاش میں۔ سورج غروب ہوتے ہی رانپور پر خوف طاری ہو جاتا تھا۔
خاندان میں علی اور اس کی بیوی ثنا اپنے دو بچوں کے ساتھ نئے گھر میں منتقل ہوئے، وہ family خوشی سے سرشار تھے کہ گاؤں میں زندگی سکون سے گزرے گی۔ علی ایک انجینئر تھا اور اسے ایک مقامی پروجیکٹ پر کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ رانپور کی خوبصورتی نے انہیں بہت متاثر کیا تھا۔
لیکن پہلے ہی دن سے، ثنا کو عجیب و غریب احساسات ہونے لگے۔ اسے لگتا تھا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے، اور ہوا میں ایک سرسراہٹ سنائی دیتی تھی، جیسے کوئی آہستہ آہستہ سرگوشی کر رہا ہو۔ راتوں کو وہ ڈراؤنے خواب دیکھتی تھی، جن میں بچے دردناک چیخیں مار رہے ہوتے تھے۔
ایک رات، ثنا نے علی کو جگایا۔ ''مجھے یہاں سے جانا ہے، علی۔ یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔'' علی نے اسے تسلی دی اور کہا کہ یہ محض اس کا وہم ہے۔ لیکن ثنا کا خوف بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
اگلے دن، علی کام پر چلا گیا اور ثنا گھر پر اکیلی تھی۔ وہ بچوں کے ساتھ صحن میں بیٹھی تھی کہ اچانک اس نے ایک بچی کو دیکھا۔ وہ سفید لباس پہنے ہوئے تھی اور اس کی آنکھیں خالی تھیں۔ بچی ثنا کو گھور رہی تھی اور پھر آہستہ آہستہ غائب ہو گئی۔ ثنا ڈر کے مارے چیخ پڑی۔
جب علی شام کو واپس آیا تو ثنا نے اسے ساری بات بتائی۔ علی نے ثنا کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ اس کی نظر کا دھوکا ہے، لیکن ثنا اپنی بات پر اڑی رہی۔ اس نے علی سے کہا کہ وہ گاؤں چھوڑ دیں۔
علی نے گاؤں کے ایک بزرگ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ بابا نور محمد رانپور کے سب سے معتبر شخص تھے اور انہیں گاؤں کی تاریخ کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا۔ علی نے بابا نور محمد کو ثنا کے خوابوں اور بچی کے بارے میں بتایا۔
بابا نور محمد نے گہری سانس لی اور کہا، ''تم نے جن بچوں کو خواب میں دیکھا ہے، وہ رانپور کی المناک تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان کی روحیں آج بھی انصاف کی منتظر ہیں۔''
بابا نور محمد نے علی کو بتایا کہ جاگیردار نے جن بچوں کو زندہ دفن کیا تھا، ان کی قبریں گاؤں کے باہر ایک پرانی حویلی کے قریب ہیں۔ انہوں نے علی کو خبردار کیا کہ وہ اس حویلی کے قریب نہ جائیں، کیونکہ وہاں بچوں کی روحیں بہت بے چین ہیں۔
علی نے بابا نور محمد کی بات کو سنجیدگی سے لیا۔ اس نے ثنا کو حقیقت بتائی اور دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ گاؤں چھوڑ دیں گے۔
لیکن جاتے جاتے، علی نے ایک آخری کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ان معصوم بچوں کے لیے انصاف چاہتا تھا۔ وہ بابا نور محمد کے ساتھ حویلی کی طرف روانہ ہوا۔
حویلی ایک خستہ حال عمارت تھی، جس کے چاروں طرف لمبی گھاس اور جھاڑیاں تھیں۔ دروازے پر ایک بڑا سا تالا لگا ہوا تھا، لیکن علی نے اسے توڑ دیا۔
اندر کا منظر دل دہلا دینے والا تھا۔ حویلی کے صحن میں ایک گہرا گڑھا تھا، جو بچوں کی قبروں کی نشاندہی کر رہا تھا۔ گڑھے کے ارد گرد مٹی پر ننھے ننھے قدموں کے نشان تھے۔
اچانک، فضا میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ علی اور بابا نور محمد نے محسوس کیا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ان کے ارد گرد بچوں کی روحیں موجود تھیں۔
روحوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ علی اور بابا نور محمد ڈر کے مارے چیخنے لگے۔ انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن روحوں نے انہیں گھیر لیا۔
اگلی صبح، گاؤں والوں نے علی اور بابا نور محمد کی لاشیں حویلی کے پاس پڑی ہوئی پائی۔ ان کے چہروں پر خوف کے آثار تھے۔ رانپور کے لوگ سمجھ گئے کہ معصوم بچوں کی روحوں کو آخرکار انصاف مل گیا ہے۔
لیکن رانپور کا خوفناک راز آج بھی برقرار ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ راتوں کو حویلی سے بچوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ اور جو کوئی بھی اس حویلی کے قریب جاتا ہے، وہ کبھی واپس نہیں آتا۔ رانپور ایک گمنام گاؤں بن چکا ہے، جہاں خوف ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ جو خاندان بھی اس گاؤں میں جاتا ہے، وہ ہمیشہ کے لئے اس خوفناک راز میں کھو جاتا ہے۔
اور یوں رانپور کی کہانی، جو کبھی ایک پرسکون گاؤں تھا، ایک دائمی خوف کی داستان بن گئی۔ ایک ایسی داستان جو ہر سننے والے کے دل میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہو جاتی ہے۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ، اس کی سچائی مزید گہری ہوتی جاتی ہے۔ یہ یاد دہانی کرواتی ہے کہ ظلم کبھی نہیں مرتا، اور مظلوموں کی روحیں ہمیشہ انصاف کی تلاش میں بھٹکتی رہتی ہیں۔
لہٰذا، رانپور کی کہانی محض ایک ڈراؤنی کہانی نہیں ہے؛ یہ ایک انتباہ ہے، ایک پیغام ہے ان تمام لوگوں کے لیے جو طاقت کے نشے میں اندھے ہو کر دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔ یہ انہیں یاد دلاتی ہے کہ ہر ظلم کا حساب چکتا ہونا ہے، چاہے اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے۔
اور جو لوگ رانپور میں رہ رہے ہیں، وہ ہمیشہ خوف میں جیتے ہیں، ایک ایسے خوف میں جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی زمین پر ایک ایسا لعنت ہے جو ہمیشہ کے لیے قائم رہے گی۔
آخر میں، کہانی ایک کھلا اختتام رکھتی ہے، جو قاری کو خود یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا رانپور کی روحوں کو کبھی سکون ملے گا، یا وہ ہمیشہ اس گاؤں کی فضاؤں میں بھٹکتی رہیں گی؟